’’لفظوں کا باغ اور خوابوں کے مالی ‘‘
“چراغ دل کا جلائیں علم کی کرنوں سے
یہ روشنی ہے جو صدیوں سفر کرے گی”
پندرہ سال پہلے جب میں پہلی بار پرائمری اسکول کے کلاس روم میں داخل ہوئی تو سامنے ننھے منے چہروں کی قطار تھی۔ آنکھوں میں تجسس کی چمک، گالوں پر شریر مسکراہٹیں، اور ہاتھوں میں کاپیاں جن کے حاشیے پھول، تتلیاں اور جانے کیا کیا ڈرائنگ سے بھرے ہوئے تھے۔ اس لمحے میں نے سوچا، “یہ تو ایک
کتاب سے زیادہ ایک کہانیوں کا باغ ہے، اور میں اس باغ کی مالی بننے جا رہی ہوں۔” شروع میں میرا گمان تھا کہ میں بچوں کو پڑھانے آئی ہوں، لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ اصل میں یہ بچے مجھے زندگی پڑھا رہے ہیں۔ ہر دن ایک نیا سبق، ہر چہرہ ایک نیا باب- ۔
کبھی کسی لفظ کا ہجے بگاڑ کر ایسا نیا معنی گھڑ دینا کہ ہنسی چھپانا مشکل ہو جائے، اور کبھی کسی کہانی کے آخر پر ایسا سوال کہ میں بھی سوچ میں پڑ جاتی ۔
اردو کی کلاس میرے لیے صرف زبان سکھانے کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ جذبات، اقدار اور محبت بانٹنے کا ایک خوبصورت بہانہ تھی۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح “ا” سے آغاز کرتے کرتے بچے “آسمان” تک پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی غالب اور اقبال کے اشعار میں چھپے خواب سمجھائے، تو کبھی معصوم کہانیوں میں زندگی کی سچائیاں ۔
یہ سفر البتہ ہمیشہ ہنسی خوشی نہیں گزرا۔ کچھ دن ایسے بھی آئے جب شرارتوں کا طوفان کلاس روم کو ہلا دیتا۔ کبھی چپکے سے پنسل چبانے کی مقابلہ بازی، کبھی کتابوں کے نیچے چھپی چاکلیٹ کی خوشبو، اور کبھی وہ لمحہ جب بچے نے کہا: “مس! یہ نظم تو ہم نے کل بھی پڑھی تھی!” (حالانکہ کل ہم نے بالکل مختلف سبق پڑھا تھا!) مگر یہی شرارتیں بعد میں یادوں کا سب سے خوبصورت حصہ بن گئیں ۔
پندرہ سال بعد آج جب اپنے شاگردوں کو مختلف شعبوں میں کامیاب دیکھتی ہوں تو دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ لیکن سب کی باتوں میں، سب کے لہجوں میں کہیں نہ کہیں اردو کی خوشبو اور میرے کلاس روم کی چہکار موجود ہے- ۔
اور یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہر نئے تعلیمی سال کے آغاز پر میں پھر سے ان معصوم چہروں کے درمیان آتی ہوں، نئے خواب سنتی ہوں، نئے لفظ لکھواتی ہوں، اور دل ہی دل میں دعا کرتی ہوں کہ یہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔ کیونکہ ایک استاد کا سفر کبھی رکتا نہیں — یہ لفظوں سے روشنی بنانے کا ایک مسلسل عمل ہے- ۔
“ایک استاد کا اصل انعام ڈگریاں یا تنخواہ نہیں، بلکہ وہ دعائیں ہیں جو شاگرد دل سے دیتے ہیں اور وہ محبت جو برسوں بعد بھی قائم رہتی ہے- ۔”
استاد کی محنت کا ثمر پھول بن کے کھلتا ہے
یہ وہ رشتہ ہے جو وقت کے ساتھ اور نکھرتا ہے
ہر لفظ جو پڑھایا وہ چراغ بن کے جلتا ہے
جو دل سے لگایا وہ صدیوں تک مہکتا ہے
