جون کی جھلستی دھوپ ہو یا جولائی کی تپتی سہ پہر، اگر کوئی چیز ہمارے دل کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے تو وہ ہے آم — ہمارا پیارا، رسیلا، خوشبودار “پھلوں کا بادشاہ”!
پاکستان میں گرمیوں کا ذکر آم کے بغیر بالکل ویسا ہی ہے جیسے ساون بغیر بارش کے۔ آم صرف ایک پھل نہیں، بلکہ ہمارے کلچر، ہماری یادوں اور ہماری خوشیوں کا ایک لازمی حصہ ہے۔ بچپن کی وہ شامیں یاد ہیں جب نانی یا دادی کے آنگن میں بیٹھ کر آم چوسنا ایک خوشگوار رسم ہوا کرتی تھی۔ یا وہ دوپہریں جب فریج سے نکلا ٹھنڈا سندھڑی آم ایک نعمت لگتا تھا۔ لنگڑا، چونسا، دسہری، انور رٹول — ہر ایک آم کی خوشبو میں ایک خاص بات اور ذائقے میں ایک الگ کہانی چھپی ہوتی ہے۔
آم کھانے کا اپنا ایک سلیقہ ہے: کوئی اسے چوس کر کھاتا ہے، کوئی چمچ سے گودا نکال کر، اور کچھ لوگ شوق سے آم کا شیک یا فریش سلاد بناتے ہیں۔ آم سے جڑے ذائقے اور لمحات دل میں مٹھاس گھول دیتے ہیں، جیسے گرمی کی شدت میں ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا۔
آم: ذائقہ، صحت اور روایت کا خزانہ
آم نہ صرف ذائقے کا بادشاہ ہے بلکہ صحت کا محافظ بھی ہے۔ اس میں وٹامن اے اور سی، فائبر، اور قدرتی اینٹی آکسیڈنٹس بھرپور مقدار میں پائے جاتے ہیں جو نہ صرف قوت مدافعت بڑھاتے ہیں بلکہ جسم کو گرمی کے اثرات سے بھی بچاتے ہیں۔
گرمیوں میں آنے والے مہمانوں کے لیے آم کا پیالہ پیش کرنا مہمان نوازی کی خوبصورت علامت بن چکا ہے۔ آم کی چٹنی، اچار، آئس کریم یا صرف آم کا گودا — ہر انداز میں یہ پھل دل کو بہلاتا ہے اور ذائقے کی دنیا میں رنگ بھر دیتا ہے۔
دیہاتوں کے آم کے باغات ہوں یا شہروں کے بازار، آم کا سیزن جیسے ایک تہوار بن چکا ہے۔ بچے اسے کھانے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، اور بڑے پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔
آخر میں…
آم صرف ایک موسمی پھل نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے دل کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں نہ صرف تازگی دیتا ہے بلکہ ہر سال گرمیوں میں ایک نیا جذبہ، نئی خوشی، اور خوبصورت یادیں بھی لے کر آتا ہے۔
تو آئیں، اس موسم گرما میں آم سے جڑی خوشیوں کو بانٹیں، اس کے ذائقے سے لطف اٹھائیں، اور اس “رسیلے تحفے” کے ساتھ