جماعت چہارم اے کے بچوں نے سادگی کے موضوع کو دلچسپی سے پڑھا اور روزمرہ زندگی سے سادگی کی مثالیں بھی دیں. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق بتایا گیا. بچوں نے نہایت ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے آن لائن کلاس لی.
سادگی بھی انسان کو اس کے وجود اور خدا سے قریب کر دیتی ہے اور آدمی کئی مشقتوں سے بچ جاتا ہے۔ سادگی اور سادہ روی کے تین فائدے ہیں: (1)ذہین کی پاکیزگی’ (2)تخلیقی قوت اور (3)روحانی علوم کا حصول۔ اگر سادہ روی کے دوران پچھلی دو چیزوں سے وابستگی نہ بھی ہو تو بھی یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ مل جاتی ہیں۔
سادگی ایمان کا حصہ ہے.
نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم سے کم سامانِ دنیا سے گزر بسر کرنے کو سادگی کہتے ہیں۔ انسان کی خواہشات کا سلسلہ تو لامتناہی ہے۔ سادگی سے مراد یہ ہے کہ ہم خود کو غیر ضروری خواہشات سے روکیں اور اپنی احتیاجات کو بھی ایک محدود دائرے میں رکھیں.
سیرت النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سادگی کے نقوش :
نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی سادگی سے عبارت ہے ، رہن سہن میں سادگی ، نشست وبرخاست میں سادگی ، خورد ونوش میں سادگی ، لباس وپہناوے میں سادگی ، اوڑھنے بچھونے میں سادگی ، لوگوں کے ساتھ میل جول اور رکھ رکھاؤ میں سادگی ، الغرض!آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے جس گوشہ پر نظر ڈالئے، ہر طرف سادگی ہی سادگی نظر آئے گی ،آپ کی زندگی تکلف وتصنع سے کوسوں دور ، تواضع ومسکنت اور عجز وانکساری کا واضح اور بے مثل نمونہ تھی ، ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ کا یہ متواضعانہ طرزِ حیات اضطراری تھا؛ بلکہ آپ نے اس بے تکلف طرزِ معیشت کو اختیاری طور پر اپنایا تھا؛چونکہ آپ ﷺ کا جذبۂ جود وسخا اس قدر بیدار عوامی احساس اور رعایا پروری کی خو آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں اس قدر رچی بس گئی تھی کہ جو چیز بھی آپ کے پاس موجود ہوتی اسے آپ فورا بلا تامل کسی تاخیر کے راہِ خدا میں صرف فرمادیتے ، اگر آپ چاہتے تو آپ ﷺ کے لئے کیا کچھ سامانِ عیش وعشرت کا انتظام نہ ہوتا ، مدنی زندگی کے آخری دور میں خصوصا خیبر وحنین کی فتح کے بعد سامانِ عیش وعشرت کا انتظام نہ ہوتا ، مدنی زندگی کے آخری دور میں خصوصا خیبر وحنین کی فتح کے بعد مسلمانوں کی معاشی واقتصادی حالت بھی کافی حدتک درست ہوچکی تھی ، اسلامی سلطنت کے حدود بھی بے پناہ وسیع اور کشادہ ہوچکے تھے ، آپ ﷺ اس وقت سارے خطۂ حجاز کے تنِ تنہا سربراہ اور حاکم تھے ، اگر آپ ﷺ چاہتے تو اس جدید اور وسیع مملکت کے معمار وبانی کی حیثیت سے آپ کے لئے بہترسے بہتر رہائش گاہوں ، عمدہ عمدہ ملبوسات ، مختلف نوعیت کے کھانے اور ہر طرح کے سامانِ راحت کا انتظام ہوسکتا تھا، آپ ﷺ کے جانثار اور سرفروش صحابہ آپ ﷺ کے چشم وابرو کے اشارے پر ساری دنیا جہاں کی نعمتیں آپ کے قدموں پر لا کر رکھ سکتے تھے ؛ لیکن قربانی جائے (فداہ ابی وامی ﷺ) پر آپﷺ نے اس بہتات اور فراوانی کے دور میں بھی وہی قدیم سادگی پر مشتمل طرزِ حیات کو اختیار کیا ، آپ نے عوامی معیارِ زندگی سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی خاص اور امتیازی شکل اپنانے کے روادار نہ ہوئے ، ساری زندگی بندہ اور غلام بن کر رہنا پسند کیا.
Islamiat Lesson “SADQI” Class 4A
409 Views