اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ اس میں نثر اور شاعری کا بھرپور ورثہ ہے جو 17ویں اور 19ویں صدی میں لکھی گئی تھی۔ اردو کو پاکستان میں رابطے کی اہم زبان سمجھا جاتا ہے۔اردو کی گرائمر کافی آسان ہے اور تقریباً انگریزی گرامر کی طرح ہی ہے، کیونکہ اس میں انگریزی زبان کے تمام گرامر کے تصورات شامل ہیں، یہی ایک وجہ ہے کہ طالب علم تصورات کو آسانی سے سمجھ پاتے ہیں۔
اگرچہ زبان سیکھنے کی رفتار سیکھنے والے پر منحصر ہوتی ہے، لیکن اردو میں بولنا، لکھنا اور پڑھنا سیکھنے میں تقریباً چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔تحریری نظام کے لحاظ سے، اردو نستعلیق رسم الخط کا استعمال کرتی ہے، ایک ترمیم شدہ فارسی رسم الخط جو عربی رسم الخط کی ایک قسم ہے۔ یہ مخصوص رسم الخط پشتو، فارسی، پنجابی اور کشمیری لکھنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
بیکن ہاوس اسکول میں اردو تدریس کا طریقہ بہت منفرد ہے۔
تدریس کی مضمر شکل میں، زبان سیکھنے کے عمل کو لطیف بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ بیکن ہاؤس اردو طریقہ تدریس میں اساتذہ طلباء کو اپنے طور پر کام کرنے دیتے ہیں اور طلباء کو زبان کو سمجھنے اور اس کے اصولوں کو سیکھنے میں مدد کرنے میں محض ایک رہنما کا کام کرتے ہیں ۔ اساتذہ طلبہ کو سر گرمی کی صورت میں پڑھاتے ہیں تا کہ اردو میں ان کی دلچسپی بڑھے اور پھر کمرہ جماعت کا ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جہاں طلبہ کو زبان، الفاظ کے معانی، گرامر کے ڈھانچے، قواعد وغیرہ جاننے کی آزادی دی جاتی ہے۔ اس قسم کی زبان سیکھنے کے نتیجے میں طالب علم کے اندر تحقیق و جستجو کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور طالب علم خود ہی چیزیں سیکھتے ہیں۔ دوسری طرف اسا تذہ طلباء کی اصلاح کے لیے موجود ہیں اور ان کی غلطیوں کو درست کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور اسباق کا بہتر تجزیہ کرنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے قابل بناتے ہیں ۔
اس کے علاوہ طلباء کو مختلف سرگرمیوں کے زریعے پڑھایا جاتا ہے ۔ اساتذہ مختلف تدریسی طریقے اپناتے ہیں جو خاص طور پر اردو سیکھنے کے معاملے میں اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ طلباء سیکھنے کے عمل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ مثال کے طور پر طلباء سے سوال پوچھ کر ، عنوان کے مطابق وڈیوز یا تصاویر دیکھا کر ان کے خیالات کو متحرک کیا جاتا ہے۔طلباء کو اردو ادب کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں اور مقابلے کروائے جاتے ہیں : جیسے تقریری مقابلے، رول پلے ، مقابلہ نظم گوئی وغیرہ۔ طلباء ان سرگرمیوں میں حصہ لے کر اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کو منظم طریقے سے بیان کریں اور تحریر کریں۔
طلباء کی ذہنی استطاعت کو دیکھتے ہوئے ان کی ذہنی سطح کے مطابق ان کا تعلیمی درجہ منتخب کیا جاتا ہے اور گفت و شنید کے دوران سوالات کے ذریعے طلباء کی سوچ کو متحرک کیا جاتا ہے ۔ بلند خوانی کے ذریعے طلباء کے تلفظ کی درستگی کی جاتی ہے ۔طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔مختلف سر گرمیوں کے ذریعے اردو ادب میں دلچسپی پیدا کی جاتی ہے۔
حاصلات سبق کے مطابق پرائمری کلاسز کے طلباء سے گفت وشنید کے دوران عنوان کے متعلق معلومات دی جاتی ہیں اور سرگرمی کمرہ جماعت میں کروا کر پھر ان سے سوال و جواب اخذ کروائے جاتے ہیں۔ پھر پڑھائی کے دوران مشکل الفاظ خط کشید کروا کر ان کے معنی بتائے جاتے ہیں اور معلومات دی جاتی ہیں .اس کےبعد گروہی کام کروایا جاتا ہے جس سے بچوں کو عنوان اچھے طریقے سے سمجھ آجاتا ہے۔جس کے بعد تحریری کام کاپی پر مکمل کروایا جاتا ہے۔
منظر نگاری میں بچوں سے گفت و شنید کے دوران تصویر / منظر سے متعلق گفتگو کروائی جاتی ہے۔ بچوں سے تصویر / منظر میں موجود اردگرد کی چیزوں سے متعلق بچوں کی رائے لی جاتی ہے۔
موضوع کے مطابق جانچ کا معیار دیا جاتا ہے۔ منظر نگاری کے لئے صورتحال دے کر جانچ کے معیار کے مطابق منظر نگاری کروائی جاتی ہے اور اس پر ساری جماعت کا مثبت تبادلہ خیال کروا کر اصلاح کی جاتی ہے۔
(جانچ کا معیار)
أغاز : جگہ ، وقت، ماحول ، موسم۔
نفس مضمون: منظر سے متعلق مکمل معلومات، کردار، مکالم، اردگرد نظر أنے والی اشیا ء
اختتام: منظر سے متعلق اپنی رائے
بیکن ہاؤس خاص طور پر اردو کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے کیونکہ اردو سیکھنے سے آپ کی علمی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ یہ آپ کے دماغ کو تربیت دیتا ہے اور اسے مضبوط اور صحت مند رکھتا ہے۔ نئے گرامر کے اصولوں کا تعارف، نئے الفاظ، نئے جملوں کی ساخت اور نئے الفاظ کی تشکیل دماغ کے لیے اچھی مشقیں ہیں۔